موضوعات کئی اور ان پر ایک رائے کی رائے

کل 6   ستمبر تھا دنیا کے جس حصے میں میں آجکل رہ رہا ہوں وہاں یہ باقی دنوں کی طرح ایک عام سا دن تھا ، لیکن دنیا کے جس حصے سے میرا تعلق ہے کہ جہاں میں نے زندگی گزاری وہاں یہ دن ایک تاریخی اہمیت کا حامل ہے، اب کا تو پتا نہیں پر کوئی ایک دہائی پہلے کلنڈر پر یہ دن سرخ رنگ سے لکھا ہوتا تھا، عام تعطیل ہوتی تھی اور لوگ اس دن اور اس کے بعد ہونے والی واقعات کو یاد کیا کرتے تھے. پھر ہمارے ہاں روشن خیالی کی ایک لہر آئی جس نے ہمیں "کاما” بنا دیا، پنجابی میں بہت زیادہ کام کرنے والے کو کاما کہتے ہیں. اب چونکہ ہم پہلے سے زیادہ کام کرتے ہیں لہٰذا اب ہمیں عام تعطیل کی ضرورت نہیں رہی  کلنڈر پر تاریخ کا رنگ بدلا اور اس دن کی اہمیت جاننے کا واحد ذریعہ اخبارات کا خصوصی ایڈیشن اور ٹی وی کے چند پروگرام رہ گئے یا اگر کسی کو سہولت میسر ہے تو ان لوگوں کی کہانیاں جنہوں نے سینتالیس سال قبل اس جنگ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ، وہ جو آج کے روز شروع ہوئی.
جب بچپن کے دن یاد ماضی سے نکل کر سامنے آتے ہیں تو یاد آتا ہے کہ کس طرح آج کے دن پر فخر محسوس کرتا تھا اور اس احساس فخر میں میں اکیلا مبتلا نہیں تھا مجھ جیسے کئی اسی جذبے کے زیر اثر تھے. ہم لوگوں کو فخر تھا اس بات پر کہ کیسے ہماری فوج نے سرحدوں کی حفاظت کی اور دشمن کو اس کے ارادوں میں کامیاب نہ ہونے دیا. لیکن جیسے میں نے کہا یہ سب روشن خیالی کی اس لہر کے آنے سے پہلے کی بات ہی کہ جس نے ہمیں تاریک دور سے نکالا اور ہمیں سکھایا کہ ہمیں جنگ کے واقعات اور جنگ کے ہیروز کا تذکرہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس سے ہم جہادی پیدا کر رہے ہیں. اس لہر کے آنے کے بعد مجھ جیسے لوگوں کے لئے ایک الجھن پیدا ہو گئی کہ آخر اصل حقیقت ہے کیا؟ اور کون سہی ہے؟ وہ جنہوں نے بذات خود جنگ میں حصہ لیا اور انکی داستانیں یا وہ حقیقت  ہے جو صحیح تاریخ کے نام پر ہمیں ہمارا امن پسند طبقہ بتا رہا ہے.
یہ ایک کبھی نہ ختم ہونے والی بحث اور  الجھن  ہے، کیونکہ ہم نوعیت کے اعتبار انتہائی  اور شدید قسم کی سوچ رکھنا پسند کرتے ہیں. ہم  نقطہ نظر  میں ہمیشہ دونوں انتہاؤں میں سے ایک کا ہے انتخاب کرتے ہیں تیسرا راستہ ہمیں قابل قبول نہیں ہوتا. ہم یا تو شاباش ک لئے تھبکی کی قائل ہیں یا ہوش میں لانے اور غلطی کا احساس دلانے کے لئے تھپڑ کے استعمال کے تیسرا طریقہ نہ اپنے پاس ہے نہ ہم نے اس کے بارے میں کبھی سوچا. ہمیں کہا جاتا ہے کہ ہم لوگوں کو اب "ہم ایک عظیم قوم” ہیں کی سوچ سے باھر نکلنا ہوگا جبکہ مجھے خطہ ارض پر ایک ایسی قوم نہیں ملتی جو خود کہتی ہو کہ ہم ایک ذلیل اور رسوا قوم ہیں. تو پھر ہمیں یہ درس کیوں دیا جاتا ہے وہ بھی تب جب ہم انتہائی گراوٹ کا شکار ہیں اور ہمارا جذبہ پاتال کو چھو رہا ہے. اگر تاریخ کی درستگی درکار ہے تو کیا جو طریقہ ہم پر مسلط کیا جا رہا ہے کیا یہی درست طریقہ ہے؟
اب سوال یہ ہے کہ کیا میں آج بھی اس دن کو "یوم دفاع” ہی کہوں گا؟ کیا اب بھی مجھے اس دن پر فخر ہے؟ کیا اب بھی میں اپنے آپ کو ایک عظیم قوم کا فرد کہوں گا؟ ان تمام سوالوں کا جواب ایک بہت بڑا "ہاں” ہے. میرے نزدیک حقیقت یہ ہے ک جب جنگ شروع ہوئی تو ہم نے اپنا دفاع کیا یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ جنگ کیسے اور کس نے شروع کی. تب ہمیں معلوم تھا کہ اپنا دفاع کیسے کیا جاۓ کیوں کہ تب ایک جذبہ زندہ تھا اور وہ جذبہ تھا سربلندی حاصل کرنے کا مگر آج وہی جذبہ اول تو ناپید ہے اور اگرپیدا ہو بھی جائے تو تاریخ کی درستگی اور حقائق کے نام پر اسکا گلا گھونٹا جا رہا ہے. ہم میں خرابیاں ہیں جو کہ ایک حقیقت ہے لیکن کیا مرے ہوئے ارادوں اور پھسپھسے جذبے کے ساتھ انکو دور کیا جا سکتا ہے؟ کیا آج ہمیں زندگی کے ہر میدان میں اس جذبے کی ضرورت نہیں جو چار دہائیاں قبل ہم لوگوں میں موجود تھا؟ میں آج بھی اس بات پر ایمان رکھتا ہوں کہ ہم ایک عظیم قوم ہیں ہاں مگر وہ روش ہم نے چھوڑ دی ہے جو ایک عظیم قوم کا خاصا ہوتی ہے اور ہمیں صحیح راستہ اختیار کرنا ہوگا. اب کیا یہ عمل بغیر جذبے کے ممکن ہے؟
مجھے اب بھی اس دن پر فخر ہے اور یہ میرا طریقہ ہے ان تمام قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا جو اس ملک کے لئے دی گئیں. مجھے فخر ہے ہر اس شحص پر جس نے اس ملک کے لیے محنت کی خواہ وہ کوئی بھی شعبہ ہو. کیوں کہ میرے ہیروز یہی لوگ ہیں جنہوں نے اس ملک کے لئے قربانی دی اور میں انکی قربانی کو حقائق اور صحیح تاریخ کے نام پر گالی نہیں دے سکتا. میرے لئے ان ہیروز کی قدر ان رہنماؤں سے کہیں زیادہ ہے جنہوں نے اس قوم کو بار بار اور کئی ناموں پر بیچا. کاش ہم قربانیوں کا احترام کرتے ہیں اور کاش وہ مقصد حاصل کر لیتے کہ جس کے لئے یہ تمام قربانیاں دی گئیں. کوشش کا آغاز کرنے میں اب بھی کوئی قباحت نہیں ضرورت ہے تو اس گراوٹ سے نکلنے کی جسکا تعنہ ہمیں بار بار سننے کو ملتا ہے.

Comments on: "اگر ہے جزبہِ تعمیر زندہ۔" (1)

  1. ترقی پسندوں کی آیئڈیولوجیز کو ایک طرف رکھ کے دیکھا جائے تو masses کی ابھی بھی یہی سوچ ہے جو یہاں بیان کی گئی

Leave a reply to fareehafarooq جواب منسوخ کریں